میں صاف گرد سے یوں دل کا آئینہ رکھوں
کسی سے کو یہ شکایت نہ کچھ گلہ رکھوں
قدم بڑھاتے چلا جارہا ہوں میں پھر بھی
اگرچہ کوئی بھی منزل نہ راستہ رکھوں
مجھے جہاں سے نہ اہل جہاں سے کوئی غرض
میں صرف تجھ سے تیرے غم سے واسط رکھوں
ہے اب تو جشن چراغاں کی ایک ہی صورت
بحال پلکو پے آشکوں کا سلسلہ رکھوں
میں صحن دل میں کھلاؤں گلاب زحموں کے
خزا میں فصلٍ بہاراں سے رابطہ رکھوں
ہزار غم ہیں مسَلسل میرے تعا قب میں
یہ میرا ظرف کہ میں پھر بھی حوصلہ رکھوں
زباں پہ اور ہو کچھ دل میں اور کچھ حسرت
دل و زبان میں کیوں اتنا فاصلہ رکھوں