میں نا چیز جہاں ایک زرہ خاک کی طرح
میرے سوکھے ہوئے لب خاموش فریاد کی طرح
میری گھورتی آنکھیں ہیں بھوک افلاس کی طرح
میری محبت میرے چہرے پر الزام کی طرح
رہتا ہے پاس وہ میرے مگر گمان کی طرح
پل رہا ہے غم میرے اندر سرطان کی طرح
میرا دل جس میں ہے بند وہ ہے زندان کی طرح
اندر سے اٹھتی ہوئی ہوک ہے طوفان کی طرح
کھل رہا ہے قفل تصور مجھ پر تیرا وجدان کی طرح
پاس بس امید ہے باقی ساتھ ایمان کی طرح
سامنے تیرے سر کو جھکایا جب بھی غلام کی طرح
اور مانگی پناہ اس سے جو ہے شیطان کی طرح
رکھ لیا اوٹ میں اس نے اپنی مجھے امان کی طرح
اے زمیں ! میرا خدا ہے کیونکہ رحمان کی طرح
میں نا چیز جہاں ایک زرہ خاک کی طرح