میں نے اکثر سوکھوں کو خود پر ھنستے دیکھا ھے
اس کو بارھا اپنے در سے گزرتے دیکھا ھے
جو بارشوں میں گر کر بیٹھ جائیں
رستوں میں اکثر ان ٹوٹے گھروں کو دیکھا ھے
اک مدت ھوئی اس سے بچھڑے ھوئے
لیکن کیوں لگتا ھے کہ کل کہیں اسکو دیکھا ھے
دل کی بیتابی بڑھ جاتی ھے اور بھی تنھائی میں
اب تک میرے جیسا حجر کس نے دیکھا ھے
میں کہاں لکھ پاتی ھوں وہ جو من میں ھے میرے
بس لفظوں کو ھی اکثر ملتے دیکھا ھے
یہ کیسی چھبن ھے آج میری آنکوں میں
سپنے میں ایسا کیا شام میں نے دیکھا ھے