میں نے تم سے ہی تو سیکھا ہے محبت کرنا
کس قدر سخت َاذیت ہے عبادت کرنا
ہجر کی شب کسی دیوار سے لگ کر رونا
کیا مصیبت ہے کسی شخص سے نفرت کرنا
جب کبھی ٹوٹ کے بکھرو تو صدائیں دینا
کوئی امید نہ ہو تب بھی عبادت کرنا
پھر کسی ننھے سے بچے کی طرح ڈر جانا
پھر کسی بات پہ خود ہی سے شکایت کرنا
درد جتنا بھی ہو ہںستے ہوئے سہتے رہنا
اب نہیں رونا نہیں رونا یہ نیت کرنا
کوئی ہنستا ہوا چہرہ جو نظر آ جائے
اپنی تنہائی میں اس چہرے کو صحبت کرنا
دل کی دیوار کے گرنے سے ہوا ہے یہ اثر
ہر کسی سے یہی کہنا نہ محبت کرنا