تیری گلی کا ایک دریچہ میرے نام پہ کھلتا تھا
میں سمجھا تھا تو میری ہے پر یہ من کا دھوکا تھا
سورج کی کرنوں نے بتایا پیار بھی ہے اب مطلب کا
ہم سے پہلے بھی دنیا میں کیا ایسا ہی ہوتا تھا
گوری تیرے نین رسیلے میرے من کو بھائے تھے
سوچوں کا انجانا پنچھی نینوں پر منڈلاتا تھا
میں پاگل تھا من موجی تھا تجھ کو سمجھ بیٹھا اپنا
تو بھی بدل جائے گی اک دن یہ کب میں نے سوچا تھا
اپنے دل کی ساری خراشیں میں نے چھپائیں لوگوں سے
اندر اندر روتا تھا میں ظاہر ظاہر ہنستا تھا
وہ سر کو سرتاج بنانے کا جب سوچا کرتی تھی
میں پنچھی آزاد فضا کے سپنے بنتا رہتا تھا