میں پہلی بار اِس جنگل سے گزرا تھا تو سب ایسا نہیں تھا
Poet: Yawar Azeem By: Misbah Mushtaq, Rawalpindiمیں پہلی بار اِس جنگل سے گزرا تھا تو سب ایسا نہیں تھا
یہاں کچھ کچھ پرندے بولنے والے تھے ، سناٹا نہیں تھا
محبت نے مجھے قید ِ عناصر سے بہت آگے بُلایا
مگر میں اپنی مٹی کے شکنجے سے نکل پایا نہیں تھا
اِسی نقارخانے سے مجھے تربیت ِ فن مل رہی تھی
میں اپنے شعر کا ڈنکا بجانا سیکھ کر آیا نہیں تھا
یہ تُو نے کس لیے آنچل پہ تازہ خواہشوں کے پھول کاڑھے
ترے پلو سے کیا باندھا ہُوا وہ ریشمی وعدہ نہیں تھا
بقدر ِ آرزو میرا سمندر سے تعلق تھا نہ لیکن
میں اُتھلے پانیوں سے اپنا رشتہ جوڑنے والا نہیں تھا
مری تقدیر میں کُچھ سرفرازی کے ہرے لمحے لکھے تھے
نمو پاتے ہی جو پامال ہو جائے میں وہ سبزہ نہیں تھا
خموشی ، برف کی مانند ہونٹوں پر جمی رہتی تھی یاور
گلابی لفظ کے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







