Add Poetry

میں چاہتا کیا ہوں

Poet: منصور احمد ثمر By: Mansoor Ahmad Samar, Islamabad

دل کی بات کرنا چاہتا ہوں
نجانے کہنا میں کیا چاہتا ہوں

کبھی رہتا ہے یونہی دل پریشاں
نجانے سوچنا کیا چاہتا ہوں

رات بھر کھلی آنکھوں سے اکژ
نجانے خواب میں کیا چاہتا ہوں

ہے کمی کوئی سب ہوتے ہوئے بھی
نجانے پانا میں کیا چاہتا ہوں

اب کسی کی گفتگو اچھی نہیں لگتی
نجانے سننا کس کو چاہتا ہوں

حالات پرونے کیلئے الفاظ نہیں ہیں
اس لئے خاموش رہنا چاہتا ہوں

دن گزر جاتا ہے کب کہاں میرا
کبھی سوچوں میں اکژ چاہتا ہوں

کیا جو غور زندگی پہ میں نے اپنی
کہ آخر کرنا میں کیا چاہتا ہوں

بہت سوچا اور کیا کچھ وقت بھی ضائع
مشیرِنفس تب بولاکہ کہ میں چاہتا کیا ہوں


بنےماں باپ کی آنکھوں کی جو ٹھنڈک
ایسا میں فرزند بننا چاہتا ہوں

بنے تسکین کا باعث جو ہر کسی کیلئے
ایسا میں انسان بننا چاہتا ہوں


اجالا بھر دے جو لوگوں کے دل میں

ایسا میں خورشید بنناچاہتا ہوں

جو ہو ہر فصل کے لئے امید کا باعث
ایسی میں برسات بننا چاہتا ہوں


کرے روشن جو ہر رات کی محفل
قمر ایسا میں بننا چاہتا ہوں

جو مرہمِ عیسٰی ہو ہر زخم کے لئے
ایسا میں تریاق بننا چاہتا ہوں

لٹا دے جان جو اپنے وطن کے لئے
سپاہی ایسا میں گمنام بننا چاہتا ہوں


خدمتِ خلق کرکے جو بے لوث ملتا ہے
میں اس احساس کو محسوس کو کرنا چاہتا ہوں


ثمرؔ ہو جس کا شیریں میٹھے پانی کے بغیر
شجر ایسا میں سایہ دار بننا چاہتا ہوں
 

Rate it:
Views: 312
04 Apr, 2017
Related Tags on Life Poetry
Load More Tags
More Life Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets