میں چراغِ زندگی ہوں کوئی روشنی سے کہنا
کبھی کرب سے میں گزرا اُسے بے بسی سے کہنا
وہ دیار اب کہاں ہیں جہاں شاد تھے سبھی لوگ
وہاں غیر بھی تھے اپنے اُس اجنبی سے کہنا
اِن چلمنوں میں آخر تیرا حسن کیوں چھپا ہے
تو کوئی خدا نہیں ہیں اُس آدمی سے کہنا
کوئی سایا سا اجل کا میرے ساتھ چل رہا ہے
تجھے مجھ سے چین لے گا میری زندگی سے کہنا
کہیں آنکھ رو رہی ہے کہیں اشک بہہ رہے ہیں
تیری پیاس بھی بجھے گی کوئی تشنگی سے کہنا