میں کانوں کو ہاتھ لگاؤں دیکھو مرغا بن کے
Poet: Muhammad Sabir By: Muhammad Sabir, Lahoreمیں کانوں کو ہاتھ لگاؤں دیکھو مرغا بن کے
غصہ چھوڑو اور دکھلاؤ مجھ کو بلی بن کے
ایک کہانی گڑیا والی تجھ کو بیٹھ سناؤں
کیا کیا جنگل میں ہوتا ہے چل آجا بتلاؤں
بلی گیدڑ بھیڑ اور بکری کیا کرتے تھے سارے
ایک گھاٹ کا پانی پیتے تھے وہ کیسے سارے
بابا تیرے نوکر جانی بولو گانا گاؤں
تو بولے تو ناچوں جانے کیا کیا کھیل دکھاؤں
چل میں تجھ کو بتلاتا ہوں کیسے بندر کرتے
کیسے ککڑ باگاں دیتے ڈھیچوں ڈنکی کرتے
آجا میری ملکا آجا میں ہوں تیرا گھوڑا
بیٹھ سواری کر لے آجا ورنہ یہ تو دوڑا
گر کہتی ہو مجھ سے جانی چکی چکی کھیلیں
ہاں جی چھوڑو اب تو کٹی پکی پکی کھیلیں
میرے بازو پر تو آ جا گھڑیاں خوب بنا لے
اپنے پھول سے دانتوں سے تو کلیاں خوب کھلا لے
مکی ماؤس چھوڑو بیٹھو میں ہوں تیرا جوکر
میں ہوں تیرا بابا گھابا میں ہوں تیرا نوکر
آ بابا کے سینے لگ جا آ جا گڑیا رانی
آری ملکی ریشم نلکی آجا دلبر جانی
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






