میں کیسا مسلماں ہوں؟
Poet: purki By: m.hassan, Karachiمیں کیسا مسلماں ہوں
زبان سے خدا خدا کرتا ہوں
اور روز اپنے خدا کو قتل بھی کرتا ہوں
میں روز جھوٹ بولتا ہوں
میں روز قتل کرتا ہوں
لوگوں کا حق کھاتا ہوں
پڑوسیوں کو تنگ کرتا ہوں
مکرو فریب میں میرا کوئی ثانی نہیں
نفرت و دشمنی میں میرا کوئی مثال نہیں
ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی میں میرا کوئی مقابلہ نہیں
رشوت اور اقرباء پروری میرے خون میں شامل ہے
میں نے قرآن کا حکم نہیں مانا
میں نے حدیث نبوی کی کوئی پروا نہ کی
میں نے روایتوں کو اپنا اپنا سمجھا
میں نے بزرگوں کو بھی مسلکوں میں بانٹا
میں نے قرآن کی تفسیر اپنی مرضی سے کی
میں نے حدیثوں میں جھوٹ بھر دیا
میں نے روایات میں ڈنڈی ماری
میں نے تاریخ اپنی مرضی سے لکھی
قرآن کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی
قرآن کی پیروی کرنے کے بجائے اپنے آباؤاجداد کی پیروی کی
قرآن کو صرف چومنے اور بیٹی کی رخصتی کے لئے گھر میں رکھا
قرآن کو اپنے گھر کے اونچے اونچے اوطاقوں کی زینت بنادی
میں نے مسلمان کو مسلمان سے لڑایا
میں نے بے گناہ انسانوں کو موت کی نیند سلادی
میں نے انکے دماغوں میں نفرت،بغض،لسانیت اور علاقیت بھردی
میں نے اپنے علاوہ سب کو دوزخ میں جانے کا فتوٰی دیا
میں حسین حسین بھی کرتا رہا
ہر مجلس میں جاتا اور روتا رہا
علّاموں کی تقریرین بھی سنتا رہا
پرمیں فلسفہ حسین سمجھ نہ سکا
یاعلّامہ حضرات مجھے سمجھا نہ سکے
پھر میں نے اپنا حلیہ بھی بدلا
چہرے پر ڈاڑھی بھی رکھ لی
سر کے بال بھی منڈوا دیئے
لہجے میں میٹھاس بھی بھردی
میں نے مہنگی سے مہنگی ٹوپی بھی پہنی
میں نے جاپانی لٹھے کا عمامہ بھی پہنا
ایک دو مسواک بھی سامنے کے جیب میں ٹنگا دی
اور پاجامہ بھی ٹخنوں سے اوپر باندھا
میں نے چار پانچ حج بھی کئے
میں نے کئی کئی زیارتیں بھی کیں
میں نے کئی عمرے بھی کئے
میں نےقربانی بھی موٹے جانور کی کری
اب تک جو کچھ بھی میں نے کیا
محض اپنی خدائی بچانے کو کیا
اصل خدا کو میں روز قتل کرتا رہا
اور پھر بھی میں بے خبر ہی رہا
اگراپنے خدا سے سچّا ہے تُو
توکر آج اک عہد مجھ سے تُو
ریاکاری سے توبہ کر تُو
پھردیکھ خدا کیا کرتا ہے تُو
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






