میں کیسے چلے آؤں اُس کے وعدوں کے سہارے
مجھے کچھ عزتوں کو اپنے دامن میں ہے سنبھال رکھنا
یہاں وفاؤں کی قدر نہیں، تاجر ہے دنیا
میری اِس بات کو پلو میں اپنے ڈال رکھنا
اپنے آنچل کے گھیرے میں سمیٹ لو مجھ کو
میری اِس تمنا کو مان کر میرا جمال رکھنا
زندگی کی گہری شام میں، دکھ کے عالم میں بھی
ساتھ بِتائے ہوئے خوشی کے پل بحال رکھنا
بیچ راستے میں جب تمہیں لوٹ جانا ہو خالِد
اُس لمحے تم دِل کے توڑ ڈالنے کا خیال رکھنا