نئے سال کی پہلی نظم اندیشوں کے دروازوں پر کوئی نشان لگاتا ہے اورراتوں رات تمام گھر پر وہی سیاہی پھر جاتی ہے دُکھ کا شب خوں روز ادھُورا رہ جاتا ہے اورشناخت کا لمحہ بیتتا جاتا ہے