نئے نظام کی جو ابتداء نہیں کرتی
وہ قوم اپنا فریضہ ادا نہیں کرتی
میں آسماں سے بغلگیر ہونا چاہتا ہوں
زمین ، اپنی کشش سے رہا نہیں کرتی
جو روشنی ہے تہ ِ حرف ِ مدعا ، موجود
ستارگاں کے لبوں پر کِھلا نہیں کرتی
سو اب لہو سے رقم کی گئی ہے دستاویز
یقین ورنہ یہ خلق ِ خدا نہیں کرتی
دعا کے پاس نہیں ہے کلید ِ بست و کشود
دعا تو باب ِ اجابت کو وا نہیں کرتی
ہرا ہرا مرا مصرع دکھائی دیتا ہے
یہ بات کیا مجھے سب سے جُدا نہیں کرتی
سجا دیا ہے کتابوں کو شیلف میں یاور
مطالعے کی فراغت ملا نہیں کرتی