نا وہ دن ہیں نا وہ ہے نا ہی وہ زمانہ ہے
دہکتی آگ سی تنہائی میں ڈوبا فسانہ ہے
بانٹ لیا ہے دکھوں نے مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے مل گیا مجھ میں انہیں کوئی خزانہ ہے
مجھے جو میرے لہو میں ڈبو کر چلا گیا
وہ کوئی غیر نہیں اپنا ہی اک یار پرانا ہے
وہ باز نہیں آتا زخم دینے سے کبھی بھی
چھپ چھپ کر وار کرنا اس کے لئے اک بہانہ ہے
اپنے ہی حسد کرنے لگیں تو کیا کہنا تنویر
کہ دنیا میں کتنا مشکل گھر بسانا ہے