کسی دور گاؤں میں
پیڑوں کی چھاؤں میں
بیٹھی تھی اک نادان لڑکی
سوچتی خود کی حماقتوں کو
وہ تیتلیوں کو پکڑنا
کانچ کی چوڑیوں کی چاہ
مہندی سے دل لگانا
وہ دروازے کی اوٹ سے
خوشیوں کو آتے دیکھنا
وہ اپنی رنگین آنکھوں میں
رنگ برنگی خواب بھرنا
پھر اُن کی تعبیر کی چاہ کرنا
وہ اک محبوب کی آرزو
سراہے جو اُس کو
وہ ہاتھ تھام کراپنی وفا کا
یقین دِلاۓ
وہ ساتھ نبھائے گا تا عمر بھر
اس بات کی وہ قسمیں کھاۓ
پر وہ نادان لڑکی کیا ہی جانے
تیتلیوں کی چاہ منزلوں سے دور کرتی ہے
کانچ کی چوڑیوں نے ٹوٹ جانا ہے
مہندی کے رنگ نے ڈھل جانا ہے
دروازے کی اوٹ سے آتی خوشیاں
اپنے ساتھ دکھوں کا ریلا بھی لاتی ہے
وہ نادان لڑکی کیا ہی جانے
رنگین آنکھوں کے رنگین سپنے
جلد ہی بے رنگ ہو جاتے ہیں
وہ محبوب کی چاہ
صرف اُس کے جسم کو سراہے گا
وہ ہاتھ تھام کر اُسے
اندھیروں میں لے جاۓ گا
وہ کانچ کی چوڑیاں
وہ مہندی کا رنگ
وہ دروازے کی اوٹ سے آتی خوشیاں
وہ رنگین آنکھوں کے رنگین سپنے
وہ محبوب کی آرزو
وہ وفا کا یقین دِلانا
وہ تا عمر ساتھ رہنے کی قسمیں
ان سب کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں
ہاۓوہ نادان لڑکی کی نادان چاہتیں