نالہ غم میں میرے اتنا اثر ہو تو سہی
شب تاریک کی اک روز سحر ہو تو سہی
صدف زیست میں مانند گہر ہو تو سہی
عہد حاضر میں کوئی اہل نظر ہو تو سہی
عاشقی کھیل نہیں، کس کو یہ بتلائے کوئی؟
آب اس راہ میں سب خون جگر ہو تو سہی
گر اجل آئے تو آنکھوں پہ بٹھا لوں گا اسے
میری جانب بھی کبھی اس کا گزر ہو تو سہی
منزلیں آپ قدم بوس بشر کی ہوں گی
شرط اتنی سی ہے پہلے کہ بشر، ہو تو سہی
رخ بھی پردے سے نکل آئے، ملاقات بھی ہو
در جاناں پہ کوئی رات بسر ہو تو سہی
دل و جاں ہم بھی لٹائیں گے تیرے پیکر پر
تو کبھی سامنے اے رشک قمر ! ہو تو سہی
حاجت چارہ گراں باقی نہ رومی کو رہے
کام بن جائے گا، رخ ان کا ادھر ہو تو سہی