بتاوں تمہیں اک داستان
اچانک جو مجھے یاد آگئی
میری ذات میں کانٹا سا چبھا
میری روح پر جو چھا گئی
یہ دوستیاں یہ رفاقتیں
گزرتے وقت کا کھیل ہیں
یہاں وفا کا صلہ نہیں
یہاں کوئی با وفا نہیں
ملتے ہیں لوگ بے سبب
ہوتے ہیں یہ کسی کے کب
مطلبی خود غرض سے
ایک سے سب کے سب
ہر دل کا یہ ہی کہنا تھا
ہر دل کی تھی یہ داستان
کیوں کہہ دوں میری ہے یہ
کیوں اسے کوئی نام دوں
بتاوں تمہیں اک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔