پھر سے تیرے شہر میں کیا، آباد ہو گیا
اتنے میں شہر سارا، عناد ہو گیا
میرے آنے سے پہلے، ہر شے تھی خوش شکل
ہر چہرہ میری آمدسے، ناشاد ہو گیا
یہاں کوئی نہیں میرا، مگر تُو تو تھا
اس خوش فہمی سے بھی، اب آزاد ہو گیا
مطلبی ہیں لوگ یہاں پر، مطلبی زمانہ
ہمیں تو اک گیت یہی، یاد ہو گیا
نفرت ہو گئی تھی، جس نام سے تم کو
آﺅ دیکھو وہی حاوی، نام نہاد ہو گیا