ازی خود اپنے ہاتھ سے دل کے نکل گئی
دو پل گھڑی جدائی کی صدیوں میں ڈھل گئی
ہر ناروا سلوک گوارا تو کر لیا
سوزِ غمِ فراق سے ہستی پگھل گئی
دیکھی گئی کسی سے نہ میری شگفتگی
دنیا کو دیکھئے کہ تبسم سے جل گئی
محرومِ بزمِ ناز نہ کوئی ہو میری طرح
آ کے دعا یہ میرے لبوں پہ مچل گئی
جب نامہ بر کوئی بھی میسر نہ آ سکا
لے کے میرا پیام یہ میری غزل گئی نامبر