نامہ بر تیرا میری جاں یہاں اب پہنچا ہے
تیرے بیمار کا دم جب کہ بہ لب پہنچا ہے
خود بھی آ جا کہ میری جان میں جاں آ جائے
یوں تو درمان کا ہر ایک سبب پہنچا ہے
آخری وقت پہ آیا ہے عیادت کے لئے
پہلی بار آج یہاں حسب طلب پہنچا ہے
دم میں دم تھا تو نہ آیا وہ بلاوے پر بھی
دم نکلنے کو ہوا ہے تو عجب پہنچا ہے
میں دیا کرتا تھا من کو یہ تسلی لوگوں
پہنچا ہے صبر کرو یار بس اب پہنچا ہے
یوں تو ہر کام کا اک وقت متعین ہے معین
پھر بھی کیوں دیر سے پہنچا ہے وہ جب پہنچا ہے