نامہءِ عشق میں تاثیرِ التجاء کیلئے
جگر کے خون سے لکھو ذرا وفا کیلئے
طبیبِ عشق نے نسخہءِ وصل لکھا ہے
مجھے ملو تو کہیں مرض کی دوا کیلئے
امیدِ دل ہے کہ اک بار دیکھ لوں تجھ کو
ہزار سجدے کئے بھی تو اس دعا کیلئے
ہے عاشقی بھی جرم آج کل زمانے میں
ہجر کی تیرہ شبی ہے سزا وفا کیلئے
ستم ظریفیءِ دوراں بھی بڑھ گئی اب تو
تری جدائی کیا کم تھی میری سزا کیلئے
نہ کر جفا کہ تیری آنکھیں ہی کافی ہیں
تیری نگاہ ہی ہے کافی میری قضاء کیلئے
نہ کر تو اتنی محبت کہ ہوچکی احسن
تری وفا بڑی مضر تیری انا کیلئے