شاخ کیا ٹوٹی آشیانے کی
نبض ہی رُک گئی زمانے کی
اپنے ہاتھوں اگر جلانا تھا
کیا ضرورت تھی گھر بنانے کی
کُوچہِ مومناں میں بندش ہے
کلمہِ حق زباں پہ لانے کی
جم گئی ہے جو اپنے چہروں پر
وہ سیاہی ہے کارخانے کی
قریہِ شہر یار میں اب تو
سخت مشکل ہے سر چُھپانے کی
بخش لندن میں رنگداروں کو
فکر لاحق ہے آب و دانے کی