نجانے کھو دیا ہم نے کہاں جا کر سکوں اپنا
نہ کر برباد تو اے چاندنی ہم پر فسوں اپنا
نہ ہم ملتے نہ گلُ کھلتے نہ ایسی داستاں بنتی
نجانے اور کیا کیا رنگ لاۓ گا جنوں اپنا
حِنا مہکی جو ہاتھوں پر تو یہ دِل نے کہا مجھ سے
ہتھیلی پر سجا رکھا ہے ظالم تم نے خوں اپنا
ذرا ٹھہرو مِرے اشکو ضرورت کیا ہے بہنے کی؟
رہو گے کھو ل کر دُنیا پہ کیا حالِ دروُں اپنا
توُ میرے ساتھ تھا تو گویا دُنیا ساتھ تھی میرے
ہوا ہے حال کیسا کیا کہوں تیرے بدوں اپنا
چلا کرتے تھے ہم بھی سر اُٹھا کر اِک زمانے میں
تمہاری بے وفائی نے کیا ہے سر نگوں اپنا
نہیں کوئی بھی ایسا جو سمجھ پائے زباں میری
بھلا یہ دردِ کس طرح زمانے سے کہوں اپنا