جاتے جاتے وہ مجھے اچھی نشانی دے گیا
عمر بھر دھراؤں گا ایسی کہانی دے گیا
اُس سے کچھ میں پا سکوں ایسی کہا امید تھی
غم بھی وہ اپنا برائے مہربانی دے گیا
سب ہوائیں لے گیا میرے سمندر کی کوئی
اور مجھ کو ایک کشتی بادبانی دے گیا
خیر میں پیاسا رہا پر اُس نے اتنا تو کیا
میری پلکوں کی قطاروں کو وہ پانی دے گیا