گلیوں میں کیسا شور تھا
کیوں بھیڑ سی مقتل میں تھی
کیا وصف اُس شہر میں تھا
کیا بات اُس پاگل میں تھی
ایسا ستم کیا ہو گیا
اک راہ رو تھا کھو گیا
پھر زندگی کی شام تھی
اور شام بھی جنگل میں تھی
خلقت نے آوازے کسے
طعنے دئے، فتوے جڑے
وُہ سخت جان ہنستا رہا
گو خود کشی پل پل میں تھی
اپنی کشید جان سے ہی پیتا رہا
اور بس جیتا رہا
نشہ کہاں بوتل میں تھا
مستی کہاں بوتل میں تھی