نظر اُسے جابجا ڈھونڈتی ہے
ہے ایسا بھی اُس میں کیا ڈھونڈتی ہے
سکون اِسے راس آتا نہیں ہے
پھر زندگی درد نیا ڈھونڈتی ہے
جب میں نے اُس سے اپنی تصویر مانگی
اِدھر کہیں تھی رکھی، کہا ڈھونڈتی ہے
ہے دنیا بنی ایسی بھولی کہ اب کے
یہ اب بھی لوگوں میں وفا ڈھونڈتی ہے
جس پر دونوں چلا کرتے تھے
یہ آنکھ وُہی راستہ ڈھونڈتی ہے
کیا ذکر اُس کے سراپے کا انجم
کلی بھی اُس کی ادا ڈھونڈتی ہے
میں تو کب کا مر چکا ہوں سُہیل
پھر کیوں مجھے یُوں قضا ڈھونڈتی ہے