نظر انداز کیے جانے پہ حیرت کیسی
کر چکے ترک تعلق تو شکایت کیسی
عشق ہے نام بہر گام فنا ہونے کا
عشق میں دوست تمنائے سہولت کیسی
آنکھ میں تو نے ابھی پہلا قدم رکھا ہے
آ گئی تجھ میں ابھی سے یہ رعونت کیسی
نام اپنا بھی مجھے پوچھنا پڑ جاتا ہے
دیکھ حالات نے کر دی مری حالت کیسی
میں ترے دھیان میں بیٹھا تو اٹھا پردہ ء تُو
عین جلوت میں میسر ہوئی خلوت کیسی
وہ تو وہ ہیں کہ اگر نام بھی اُن کا آ جائے
جاگ اٹھتی ہے مرے دل میں محبت کیسی
اب کوئی چارہ کوئی یارا نہیں بچنے کا
تم پہ کی ہم نے تمام آخری حجت کیسی