نظر نظر میں جو حسن و شباب رہتا ہے
کہیں پہ تارا کہیں ماہتاب رہتا ہے
کہیں سے اب تو صدا دے کہیں دکھائی دے
ابھی ملن کا حساب و کتاب رہتا ہے
نہ موم اوڑح کے نکلا کرو خدا کے لئے
فلک پہ شعلہ نما آفتاب رہتا ہے
نہ مسجدوں میں نہ دیر وحرم میں ہے لیکن
خدا تو دل کے نگر میں جناب رہتا ہے
قدم قدم پہ حسینوں کے ہیں ٹھکانے مگر
مری نظر میں ترا انتخاب رپتا ہے
ضرور اس کے ہے سینے میں خوف محشر کا
جسے گناہ میں شوقِ ثواب رہتا ہے
ترا حساب تو بیباق کر دیا وشمہ
بس اب تو حشر کے دن کا حساب رہتا ہے