نظر نواز نظاروں میں راحتیں ہیں کہاں
جو کل تھیں تیرے لیے اب وہ چاہتیں ہیں کہاں
غزل کہوں بھی تو میں کس کے حسن کی خاطر
غم جہاں ہے مرے دل میں حسرتیں ہیں کہاں
غریب شہر تری محنتوں کا کیا حاصل
جبیں تو تر ہے پسینے سے اجرتیں ہیں کہاں
متاع کوچہ و بازار ہیں حسینا ئیں
ہیں جسم باقی مگر ان کی عصمتیں ہیں کہاں
تو کھو گیا ہے کہاں اے مرے وطن کے جواں
خودی کا نام و نشاں، تیری جراءتیں ہیں کہاں ؟ ؟ ؟