ہم بولیں جھوٹ اب کچھ اس طرح
کبھی سچ بولا کرتے تھے ُاس طرح
عجیب عادت سی ہوگی ہے اب تو ایسی
غفلتوں کے حامل پھر کہیں قسمت ہماری ایسی
قدرت سے شکوہ ہم روز کریں
اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کے سر کریں
راتوں کو دیر تک شوروغل کریں
پھر صبح تھکاوٹ کا رونا کریں
اپنی آن کے آگے کچھ نہ دیکھیں
انفرادیت کے بیمار اور کچھ نہ دیکھیں
اجتماعیت کے فروغ کی خاطر ہوتی جمہوریت
سب ہوں برابر مساوآت پہ مشتمل ہوتی جمہوریت
بنیادی حقوق جیسے پانی بجلی روٹی محیا کرنا کام وزیروں کا
بیروزگاری میں بشر کیا کرے ، کیا کام یہاں وزیروں کا
مال بنانے میں لگے ہیں لوگ سارے
ضمیر کا سودا کریں روز لوگ سارے
جب خود ہی نہ طلبگار ہوں گے بہتر زندگی کے
کچھ بھی کر لیں دانشمند ،حالات نہ بدلیں زندگی کے
ہوُحبشی فرنگی یاں مزہبی کوئی فرق نہیں پڑتا
اسلام میں ہے برابری پیشے سے کوئی فرق نہیں پڑتا
تبدیلی کی باتیں تو یہاں زور و شور سے کریں
پر نفس پہ قابو خرم ! یہاں روز کون کریں