وہی تاجر ہیں سرافراز، جو اس منڈی میں
نقدِ ایماں کے عوض لقمئہ تر تک پہنچے
مَیں تو سیرِ کوہ میں یہ سوچ کر سرشار ہوُں
پتھّروں میں دب کے بھی روئیدگی جاری رہی
احباب دُور اندیش ہیں، بھولے نہیں
جب بولنے کا وقت تھا، بولے نہیں
ہر پھُول اپنے رنگ کے مرقد میں دفن تھا
خوشبو بھی جب چمن سے سدھاری، ہَوا کے ساتھ