نمازِ عشق کا قبلہ ہے صرف تو اب تک
ترے خیال سے کرتا ہوں میں وضو اب تک
ترا جو ہم کو غضب سے برا بھلا کہنا
سنائ پڑتی ہے تیری وہ گفتگو اب تک
تجھے بھلانے کی کوشش بھی ہے مری بھر پور
تجھے تلاش بھی کرتا ہوں کو بہ کو اب تک
ترے جلال کا ہے یہ اثر کہ تیرے بعد
ترے خیال کی گرمی ہے روبرو اب تک
گلاب چہرہ ترا زلفِ عنبریں تیری
ترا وجود ہی دِکھتا ہے چار سو اب تک