اک تنہا بوڑھی مائی نے
دیکھا جو چند جوانوں کو
اس کے مردہ چہرے پر
خوشیوں کی بہاریں چھاتی گئی
وہ خوش تھی کہ اب بھی ہے کہیں
کچھ آس امید بچ جانے کی
ذلت سے جان چھڑانے کی
یہ طالب ہے بہتر دنیا کے
یہ دور کریں گے ظلم و ستم
یہ عالم ہیں اس دھرتی کے
یہ توڑے گے غفلت کے صنم
یہ علم کے دیپ جلائے گے
اشجارِ شعور لگائے گے
اس پاک وطن کی مٹی سے
ایوان نئے بنائے گے
پھر میری ارضی بھی ہوگی
میں اپنا بھی غم کہہ دوں گی
یہ پوچھے گے کیسی ہو ماں؟
میں ماضیءِ بےکس کھولوں گی
میں کہہ دوں گی میرا بھی اک
جوان سہارا ہوتا تھا
ہر شب کا سہارا لیکر وہ
نویدِ سحر کو روتا تھا
وہ مارا گیا، نہلایا گیا
اس خون میں جو امانت تھا
اس ملت کے مستقبل کی
روشن اک ضمانت تھا
پر تم جو ہو تو سب کچھ ہے
تم سب کا سہارا بن جاؤ
بےباکی سے، حق گوئی کو
ظالم کے آگے تن جاؤ