نکل کر جائے گا
Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, Quettaدیکھنا اعصاب وہ اک شخص شل کر جائے گا
جو یہاں آیا ہے آخر ہاتھ مل کر جائے گا
شک ذرا بھی اس کی دانائی پہ کرنا بے محل
مسئلہ ہو جس قدر گھمبیر حل کر جائے گا
تب حقیقت مان کے اس کی طرف دوڑوں گا، جب
وہ رسائی کی حدوں سے بھی نکل کر جائے گا
آئے گا زہنوں میں ایسے جس طرح کوئی بہار
وہ سراپا حسن ہے شعروں میں ڈھل کر جائے گا
آستانِ حسن پر لاؤ مریضِ عشق کو
کھاٹ پر آئے گا یہ، قدموں پہ چل کر جائے گا
ہم نے وہ پودا لگایا ہے وفا کے باغ میں
لوگ دیکھیں گے کہ یہ اک روز پھل کر جائے گا
اب کھلا (جا کر گلی میں) زخم بٹتے ہیں رشیدؔ
جو بھی اس کوچے میں اب جائے، سنبھل کر جائے گا
More Sad Poetry






