نہ تو ہے نہ کوئی پیغام آتا ہے
اک درد ہے جو صبح شام آتا ہے
آسا ن کر دی ہے غم حیات تو نے
ہمیں رونا بھی اب سرعام آتا ہے
تو لے گیا ہے سارے خواب میرے
ان آنکھوں میں کب آرام آتا ہے
ہماری وفائوں کا نہیں یقین تم کو
بے وفائوں میں اب تیرا نام آتا ہے
بدنام ہو گئے ہیں دل لگاکرہم
ہماری رسوائوں کا تجھ پر الزام آتا ہے