نہ تو یاد ہے نہ تیرا وہم یاد
تجھ سے بچھڑنے کا فقط غم یاد
کیا کیا جائے اپنی مسکینی کا کہ اب
مے کدہ یاد ہے ہم کو نہ حرم یاد
جھانکتے ہیں بار بار میرے گریباں کے اندر
ابھی تک ہیں ان کو اپنے ستم یاد
پتھر تو چاروں اور سے برسے تھے لیکن
مجرم ہیں یاد ہم کو اور نہ محرم یاد
ہم آج بھی لکھتے ہیں جب خونی تحریریں
آتے ہیں بے تحاشہ پھر تیرے کرم یاد
جب بھی دیکھتا ہوں کچھ چاند چہرے
دل کے آتے ہیں کچھ بھرم یاد
بس یہی ہے عیاز انجام محبت
ہمیں غم یاد ہیں اور غموں کو ہم یاد