نہ رہے اُٹھنے کے قابل کہ سنبھل بھی جاتے
نہ رہا زرا سا امکان کہ بدل بھی جاتے
احساسات کا ذخیرہ ہے جان کے ساتھ
ہوتے مٹی کی مورت صرف تو بہل بھی جاتے
ہم اپنی خوشیاں تجھ پر نچھاور کر دیتے
رہتے اجالے شام کے سائے گر ڈھل بھی جاتے
تم دیتے تو سہی اجازتِ محبت اِک بار
کیا مجال تھی کرتے اُف گر جل بھی جاتے
تم تو بنے رہے عمر بھر پتھر کے پتھر
ہاں! انسان ہوتے تو پگھل بھی جاتے
ہم کریں ختمِ محبت بھی تو بھلا کیسے
مر جاتے گر تم خانۂ دل سے نکل بھی جاتے