چلا تھا میں جانب جنوب، مگر کھڑا اب شمال میں ہوں
جس کا نہ کوئی جواب ہے، میں اُلجھا اُسی سوال میں ہوں
مارے تھکن کے ہو چلا ہے، بے حال سا اب جسم و جاں
ہے طالب سکوں جسم، اور میں ڈوبا اُسی کے خیال میں ہوں
جاوید مُقدر میں لکھا جا چُکا ہے شاید، انتظار تا زیست
نہ مل سکا مُجھے وُہ، اور میں عمر کے زوال میں ہوں