نہ پھر رکھیں گے تیری رہ میں پا ہم
گئے گزرے ہیں آخر ایسے کیا ہم
کھنچے گی کب وہ تیغِ ناز یارب
رہے ہیں دیر سے سر کو جھکا ہم
نہ جانا یہ کہ کہتے ہیں کسے پیار
رہیں بے لطفیاں ہی یاں تو باہم
بنے کیا خال و زلف و خط سے دیکھیں
ہوئے ہیں کتنے یہ کافر فراہم
مرض ہی عشق کا بے ڈول ہے کچھ
بہت کرتے ہیں اپنی سی دوا ہم
کہیں پیوند ہوں* یارب! زمیں کے
پھریں گے اُس سے یوں کب تک جدا ہم
ہوس تھی عشق کرنے میں ولیکن
بہت نادم ہوئے دل کو لگا ہم
کب آگے کوئی مرتا تھا کسی پر
جہاں میں رکھ گئے رسمِ وفا ہم
تعارف کیا رہا اہلِ چمن سے
ہوئے اک عمر کے پیچھے رہا ہم
مُوا جس کے لیے اُس کو نہ دیکھا
نہ سمجھے میر کا کچھ مدعا ہم