نہ ہوا وصال یار اک مدت گزر گئی ہے
اپنا دل ہے بیقرار اک مدت گزر گئی ہے
ہم جانے کس خزاں کے بگولوں میں کھو گئے ہیں
کہ دیکھی نہ پھر بہار اک مدت گزر گئی ہے
نغمے تو الفتوں کے سنسان ہو گئے ہیں
ٹوٹے ہیںدل کے تار اک مدت گزر گئی ہے
دل کے آثار اب تک ملتے نہیں کہیں بھی
ہم نے کیا تھا پیار اک مدت گزر گئی ہے
لگتا ہے غیر کوئی چال چل گیا ہے
میری قسمت میں ہے ہار اک مدت گئی ہے
اب سارا زمانہ بہرہ مردہ ضمیر کیوں ہے
ہمیں کرتے آہ وپکار اک مدت گزر گئی ہے
میرے سینے میں آکے کوئی آتش کدہ بسا ہے
مسکرائے تھے ہم بھی یار اک مدت گزر گئی ہے
اشتیاق تو بھٹک گیا ہے شاید الفت کے راستوں پر
تجھے بے یار ومدگار اک مدت گزر گئی ہے