داغ مفارقت سے سینہ پاش پاش ہے میرا
کرنا پھر بھی مجھے غموں کا اظہار نہیں آتا
مسلماں ہوں عقیدہ کُل نفسً ذائقۃالموت ہے میرا
جانے پھر کیوں تیری موت کا اعتبار نہیں آتا
نوحہ تیرا خوں سے لکھوں یا لکھوں سیائی سے
کسی صورت بھی میرے دل کو قرار نہیں آتا
بہا کر بحر اشک آنکھوں نے کچھ تو تسکین پا لی
کروں کیا دل کا دل کو صبر و قرار نہں آتا
میں تیرا ہر اک انداز چرا بھی لیتا مگر پھر بھی
تجھ سا تو ، مجھے سلیقہ گفتار نہیں آتا
کل کی طرح آج بھی تکتی ہے ماں تیری راہگذر
کہے کسے بسم اللہ کوئی تجھ سا سائیکل سوار نہیں آتا
بات کوئی تجھ میں منفرد تھی نرالی تھی
ورنہ یونہی کسی کو کسی پہ پیار نہیں آتا
پوچھا گیا جب تیرے مکتب کے اک طالب علم سے
کہنے لگا سبھی آتے ہیں مگر ڈھیری کا شہسوار نہیں آتا
منعقد آج بھی ہو رہی ہیں ہر سو محفلیں بہت
مگر ان میں کوئی تجھ سا پروفیسر انوار نہیں آتا