آنکھوں سے آنکھوں کی پہلی ملاقات نہیں بھولے
ہم بھول گئے ہر بات مگر وہ بات نہیں بھولے
جب دیدہ بینا نے بینائی کا مطلب جان لیا
اس پل کے اک درشن کی وہ سوغات نہیں بھولے
چھوٹا اپنا ساتھ مگر وہ ساتھ نہیں بھولے
جسے دل نے ہر دم یاد رکھا وہ بات نہیں بھولے
اپنی باتوں کی باتیں ان باتوں کی وہ یادیں
وہ سوئے سوئے دن وہ جاگی رات نہیں بھولے
دھوپ سلگتے آنگن میں وہ ابر کی آمد کا منظر
تپتے صحرا میں کیسے ہوئی برسات نہیں بھولے
عظمٰی جو خانہ دل میں آرام سے آ کر بیٹھ گئی
شیشے کے آنگن میں اتری وہ گھات نہیں بھولے