عشق کیسا کہ بھروسہ بھی نہیں تھا شاید
اس سے میرا کوئی رشتہ بھی نہیں تھا شاید
خلقت شہر میں جس ہار کے چرچے ہیں بہت
میں وہ بازی کبھی کھیلا بھی نہیں تھا شاید
زیست کرنے کے سب آداب اُسے ازبر تھے
مجھ کو مرنے کا سلیقہ بھی نہیں تھا شاید
خاک اُڑاتے ہوئے بازاروں میں دیکھا سب نے
میں کبھی گھر سے نکلتا بھی نہیں شاید
اُس کی آنکھوں میں بشارت تھیں نئے خوابوں کی
میں اُسے دیکھ کے چونکا بھی نہیں تھا شاید
اک بادل کے میرے نام سے منسوب تھا
میرے صحرا میں تو برسا بھی نہیں تھا شاید