نہیں جانتا کہ میرے لیئے بہتر کیا ہے
مگر جوابھی ہے اِس سے بد تر کیا ہے
خارِنصیب بھی تو بن سکتا ہے گل
تیری دسترس سے بھلا باہر کیا ہے
مانا کہ میری عادتوں میں بچپنا ہے ابھی
تیرے بھروسے سے اور معتبر کیا ہے
خاکِ رہگزر ہونے سے بچا لے مجھ کو
نہ پوچھ پاس میرے رختِ سفر کیا ہے
اپنے ہاتھوں سے تجھے غیر کو سونپا ہے
اس سے بڑھ کر رضا اورصبر کیا ہے