نہیں پسند
Poet: محمد کاشف جاوید By: محمد کاشف جاوید, Shanghai, Chinaمجھے فیصلوں میں شراکت نہیں پسند
مجبور ہو جانے کی عادت نہیں پسند
طالبِ صحت ہوں، دعا بھی ہے درکار
ہاں مگر غیر ضروری عیادت نہیں پسند
سنا ہے بہت بے دل، قہر آمیز ہوں میں
عمل سے سکھائیے، کہاوت نہیں پسند
عداوت مول لی جا سکتی ہے ہر موڑ پر
دکھاوے کے صیغہ میں محبت نہیں پسند
ہو مدِ مقابل کوئی دارِ جگر ورنہ
بھیڑوں میں بھیڑیے کی سبقت نہیں پسند
کرے وار جب حریف، کر دے چاک سینہ
اچھا ہے مگر اندیشۂ منافقت نہیں پسند
ہو شوقِ شہادت نہ خون میں انگار
بچ کے چلنے والوں کی قیادت نہیں پسند
ہجر ہو راستہ بہ تمنأ شوقِ قرب
بے قضأےخواہش، اجازت نہیں پسند
سر بہ سجود، خیالِ دشت اندرونِ دل
ملاوٹ سے داغی عبادت نہیں پسند
جو تھا، ہوں، جانتا ہوں عیب دار ہوں
فال گوئی کرنے والے تیری کہانت نہیں پسند
محفل کے معاملات، ذمۂ اشخاصِ حاضر
یہاں ہیں، یہیں رہیں، خیانت نہیں پسند
جو ہوا واقعہ، بیان کیجیے سچ سچ
نہ باندھیے تمہید، ایسی حکایت نہیں پسند
نہیں ہیں حاکم، تسلیمِ خم از حکم
اختیارِ رد بھی ہے، کیاست نہیں پسند
ہزاروں سائل، ادأ ےگویائی، معنی بے معنی
اہلِ علم کو کاشف، یہ جہالت نہیں پسند
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






