رات پھر خواب میں گزری
نیند بھی عذاب میں گزری
کیوں چلے آئے آج مقتل میں
زندگی پھر جواب میں گزری
بھول کے جس کو چھو لیا ھم نے
وہی وحشت تھی آگ میں گزری
بیتے لمحے تھے قید آنکھوں میں
یہ حقیقت بھی سراب میں گزری
خود فریبی تھی کہ پھر چلے آئے
یہ کہانی بھی حساب میں گزری