میرے لعل مجھ کو بتا
کیسے تجھ کو لوری دوں
سوکھے لبوں پے ان گنت
سوز و غم کی پہرے ہیں
زخم زخم الفاظوں میں
غم کے سسکتے راگوں مں
اندھے سلگتے ساز ہیں
کل سے تو بھی بھوکا ہے
میں بھی بھوکی سوئی تھی
بھوک کے ٹھنڈے
چولہے پے
فاقوں کی آگ جلائی تھی
فکرکی سوکھی
لکڑی سے
دکھوں کی راکھ
ہٹائی تھی
تو پانی کی بوند کو
ترسا تھا
میں بھی پیاس سے
روئی تھی
میرے لعل اب
سو بھی جا
نیند تو آ ہی جائیگی
بھڑکتے شعلوں کی
سولی پے
انگاروں کے دھکتے
بستر پے
بھوک کے پتھریلے
گدے پے
پیاس کے زخمی
تکیے پے
خود فریبی کی
چادر اوڑھے
نیند تو آ ہی جائے گی
نیند تو آ ہی جائے گی