نیند تو خواب ہے اور ہجر کی شب خواب کہاں
اس اماوس کی گھنی رات میں مہتاب کہاں
رنج سہنے کی میرے دل میں تب و تاب کہاں
اور یہ بھی ہے کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں
میں بھنور سے تو نکل آئی، اور اب سوچتی ہوں
موج ساحل نے کیا ہے مجھے غرقاب کہاں
میں نے سونپی تھی تجھے آخری پونجی اپنی
چھوڑ آیا ہے میری ناؤ تہہ آب کہاں
ہے رواں آگ کا دریا میری شریانوں میں
موت کے بعد بھی ہو پائے گا پایاب کہاں
بند باندھا ہے سروں کا میرے دہقانوں نے
اب میری فصل کو لے جائے سیلاب کہاں