پرانے برگد کے نیچے
یادوں کی تتلیوں کے پیچھے
وقت کو ٹھہرا کے
آگیا میں کافی پیچھے
اب وآپس جانے کو جی نہیں کرتا
اپنے کھلونے پھر سے
گمانے کو جی نہیں کرتا
جگنوؤں کی روشنی نے
دیا سکون ایسا
اب شہر کی روشنیوں میں
جانے کو جی نہیں کرتا
چھوٹی چھوٹی خواہشیں
وہ سادہ سے جذبات
اب دنیا کے مکر و فریب میں
جانے کو جی نہیں کرتا
نظام قدرت ہے
وقت کے سیلاب میں
بہنا پڑتا ہے
میں بھی اسی میں شامل ہوں
پانی میں بہتے ہوئے
اس درخت کی ٹہنی
میں نے پکڑ رکھی ہے
جسے چھوڑنے کو اب جی نہیں کرتا