آوارگی سے جب کوئی تھک جائے
اسے چاہے کہ اپنے گھر جائے
اتنے سارے گھروں کو بہا لینے کے بعد
دریا کو چاہے کہ اب اتر جائے
تاروں بھرا آسماں بھی گردش میں ہے
گردش ایام سے گھبرا کر کوئی کدھر جائے
لق و دق ہے یہ صحرا زندگی کا
تمازت دھوپ میں کوئی کیسے گزر جائے
اس کے ہاتھوں پر حنا دیکھ کر خیال آیا
رنگ وہی ہے جو دل میں اتر جائے
رات ہے ہوا ہے چاندنی ہے
اس زلف کی خوشبو فضا میں بکھر جائے