وارگی سے جب کوئی تھک جائے
Poet: Mobeen By: Mobeen, Islamabadآوارگی سے جب کوئی تھک جائے
اسے چاہے کہ اپنے گھر جائے
اتنے سارے گھروں کو بہا لینے کے بعد
دریا کو چاہے کہ اب اتر جائے
تاروں بھرا آسماں بھی گردش میں ہے
گردش ایام سے گھبرا کر کوئی کدھر جائے
لق و دق ہے یہ صحرا زندگی کا
تمازت دھوپ میں کوئی کیسے گزر جائے
اس کے ہاتھوں پر حنا دیکھ کر خیال آیا
رنگ وہی ہے جو دل میں اتر جائے
رات ہے ہوا ہے چاندنی ہے
اس زلف کی خوشبو فضا میں بکھر جائے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم







